Afghanistan: The End Game

افغانستان؛ ایک آخری کھیل

اخبارکانام:  ایکسپریس ٹریبیوں؛    مصنف  کا  نام:  شاہد  جاوید  برکی؛     تاریخ: 15مارچ  2021

آخر کار وہ وقت آ ہی گیا جب امریکہ افغانستان میں پچھلے بیس سالوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے جارہا ہے۔ امریکہ کا نیا صدر جوبائیڈن جب پہلے اوبامہ کے دور میں نائب صدر تھا تب بھی یہی چاہتا تھا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج واپس منگوا لے۔ اور اب جب جو بائیڈن امریکہ کا صدر بن گیا ہے تو اُسکی یہی حکمت عملی نظر آ رہی ہے کہ وہ افغانستان کی اس جنگ کو پُر امن طریقے سے ختم کرے گا۔ جب سے جو بائیڈن صدر بنا ہے تب سے اب تک وہ امریکہ کی افغانستان کو لے کر حکمت عملی کا تجزیہ کر رہا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ کی جنگ بندی کی یہ حکمت عملی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بنائی تھی۔ لہٰذا ٹرمپ کی اس حکمت عملی کو اچھی طرح پڑھنے کے بعد اب جوبائیڈن حکومت نے افغانستان حکومت اور افغان طالبان کو ایک خط لکھا ہے۔ اس خط میں انہوں نے بے شمار موقف اپنائے ہیں جن کو ایک بنیادی سا اوور ویو میں نے اپنے اس آرٹیکل میں بیان کیا ہے۔
خط کا بنیادی جائزہ لینے سے پہلے یہ بتا دوں کہ یہ خط آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور سب سے پہلے اس خط کو افغانی نیوز ایجنسی نے 7 مارچ کو اپنے چینل پر پیش کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ خط امریکی سیکٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) کی جانب سے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو لکھا گیا۔ اس خط میں بہت سے پہلوؤں کو سامنے رکھا گیا اور افغانی صدر کو انتباہ کیا گیا ہےکہ وہ اپنےملک میں امن قائم کرے اور اپنی قوم کو خطرے سے نکالے۔ اور بتایا گیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کو اس قابل بنایا جائے کہ اُس میں امن قائم ہوسکے اور طالبان کو ملک کا حصہ بنایا جا سکے۔ اور سیکٹری نے کہا جب تک یہ عمل پورا نہیں ہو جاتا تب تک آپکو چاہیے کہ ایک عبوری حکومت قائم کریں جو ملک کے لیے نیا آئین تشکیل دے۔ اسکے علاوہ ملک میں عورتوں کے حقوق کو فروغ دینے کی بھی بات کی گئی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک اور طاقتوں کو بھی اس امن کو قائم کرنے کیلئے ایک خاص کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ُنکو بھی چاہیے کہ آگے آئیں اوراس کام میں شرکت کریں۔
انٹونی نے خط میں لکھا؛ میں نے آپکوواضح طور پر بتا دیا ہے کہ بنا امن قائم کیے امریکہ کسی بھی حکمت عملی کو فروغ نہیں دے گا، لہٰذا آپ اس بات سے میری سنجیدگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ سیکٹری نے افغانی قیادت سے درخواست کی؛ ہم بہت جلد اس مسئلہ کو حل کرنے والے ہیں لہٰذا ہم دونوں ممالک اور طالبان کو چاہیے کہ ہم اس امن کے کام میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ اسکے علاوہ اس خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو امریکہ کے پاس اور بھی بہت سارے آپشن موجود ہیں۔ خط میں افغانی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے انٹونی نے کہا؛ جناب صدر امریکہ اپنی پُرانی پالیسی پر ہی قائم ہے جس کے مطابق یکم مئی تک وہ اپنی تمام افواج افغانستان سے واپس منگوا لے گا۔البتہ آپکو پہلے وہ تمام حکمت عملی اپنانا ہوں گی جن سے امریکہ کو کسی قسم کے نقصان کا خدشہ نہ ہو۔ لہٰذا سب سے پہلے تو آپکو ایک عبوری حکومتبنانے کی ضرورت ہے جو ملک کیلئے نیا آئین بنائے۔ اس کام کیلئے عبوری حکومت 2004 کا آئین ایک ریفرنس کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
اس خط میںیہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح افغانستان کی حکومت اور افغان طالبان آپس میں مل کر کام کرسکتے ہیں۔ اور یہ کہ عبوری حکومت کو کیاکیا کام کرنے چاہیے اور جب تک نیا آئین نہیں بن جاتا عبوری آئین کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ اسکے علاوہ قانونی اور حکومتی اداروں کو علیحدہ علیحدہ بنانے کی بھی تجویز کی گئی۔
آئین کےمطابق ملک میں مذہب کے کردار کو بھی واضح کیاگیا جس کے مطابق اسلام افغانستان کا قانونی مذہب ہو گا۔ اسی کےپیشِ نظر ملک میں ایک نئی قانونی اسلامک ہائی کونسل بھی قائم کی جائے گی جو حکومت کو ہر طرز کے مشورے دیا کرے گی۔ البتہ طالبان نے یہ کہا ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کو وہ تمام حقوق دیں گے جو اسلام نے انہیں دیے ہیں مگر وہ مغربی طرز کی کوئی آزادی اپنے ملک میں عورتوں کو نہیں دیں گے۔ اور اس جیسے تمام معاملات اسلامک ہائی کونسل میں حل کیے جائیں گے۔
اس خط کی بات کو مزید لے کر چلیں تو اس میں مکمل طور پر جنگ بندی کی ہدایت کی گئی اور دوسرے بین الاقوامی اداروں جیسے یو این او (UNO) کو اس کام کیلئے کردار ادا کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ اس درخواست میں یہ کہا گیا ہے کہ یو این او کو چاہیے ایک میٹنگ رکھے جس میں روس، چین، پاکستان اور بھارت کو بھی دعوت دی جائے۔ سیکٹری انٹونی نے کہا؛ میرا یقین ہے کہ اگر یہ ممالک مل کرکام کریں تو افغانستان میں جلدہی امن قائم کیا جاسکتا ہے۔ انٹونی نے یہ بھی لکھا کے ترکی کو چاہیے کہ وہ طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ ایک میٹنگ رکھے اور یہ تمام تر پہلوؤں طالبان کی قیادت کے سامنے رکھے۔ اس خط میں یہ بھی بتایا گیا کہ امن معاہدہ پورا کرنے کیلئے دونوں ممالک کو فوری طور پر جنگی بندی کا حکم جاری کر دینا چاہیے اور اسکے لیے اس خط میںباقاعدہ طور پر اصول بھی بتائے گئے ہیں۔
اب سوال یہاں یہ ہے کہ 40 سال بعد امریکہ کا افغانستان سے اس طرح واپس چلے جانا، اس بات کے افغانستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا افغان حکومت امریکی افواج واپس جانے کے بعد ملک کو کنٹرول کر پائے گی؟ کیا افغانستان حکومت کے حفاظتی اقدامات ملک میں امن قائم کرنے کیلئے کافی ہوں گے؟ ان سوالوں کو جواب لینے کیلئے دو امریکی جنرلسٹ نے افغانستان کی عوام کے انٹرویو کیے۔ انہوں نے ایسے 19 لوگوں کا انٹرویو کیا جو اُن علاقوں میں رہتے ہیں جو طالبان کے قبضے میں ہیں۔ ان انٹرویوز کا نتیجہ بتاتے ہوئے ان جنرلسٹ نے لکھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ طالبان کی حکومت اچھی ہے اور کچھ کہتے ہیں کے نہیں اچھی۔ البتہ اچھا کہنے والے زیادہ طر عمر رسیدہ لوگ ہیں جو اسلامی قوانین کی پاسداری کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اچھا نہیں کہتے وہ زیادہ تر نوجوان ہیں جو جدید دور کے اصول و ضوابط کو پسند کرتے ہیں۔ خیر امریکہ تو یہاں پر یہی امید کر رہا ہے کہ انکے جانے سے ملک میں دوبارہ ویسی بد امنی پیدا نہیں ہو گی جیسی 1990 کی دہائی میں روس کے جانے سے ہوئی تھی۔

:Sources

https://tribune.com.pk/epaper/news/Karachi/2021-03-15/MjdmMmZjNDJlZmQyODFmNzg5OTA5MDNmNjJmMjhjNDguanBlZw%3D%3D