Burning Sofas In Islamabad
اسلام آبار میں جل رہے صوفے
اخبار کا نام: ڈان؛ مصنف کا نام: ڈاکٹر پرویز ہوڈبھوئے؛ تاریخ: 27مارچ2021
صوفے کو اس طرح آگ لگانا 2007 کے لال مسجد کی واقعے کی یاد تازہ کر رہا ہے۔
اس کو ایک بُرا لطیفہ سمجھنا چاہیے یاایک خبر؟ میں نے جیسےہی یہ خبر پڑھی کہ مولانا عبدالعزیز نے اسلام آباد کےایک مدرسے میں صوفے کو آگ لگا دی ، میں نے فوراً سے اس خبر کو گوگل پر سرچ کیا۔ جس کے نتیجے میں مجھے مولانا کی ویڈیو مل گئی جس میں وہ بچوں کو جمع کر کے اُنکے سامنے صوفے کو آگ لگا رہے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز 2007 میں ہونے والے لال مسجد میں ہونے والے آپریشن میں فوج کے مخالف پارٹی میں تھے۔ یہ وہی مولانا ہیں جو حجاب پہن کر لال مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
خیر اس ویڈیو میں مولانا جامعہ فریدیا کے حال میں بچوں کو تعلیم دینے کیلئے اُن کے سامنے صوفے کو آگ لگا رہے ہیں۔ جامعہ فریدیا اسلام آباد کے آیک انتہائی حساس علاقے
E-7 میں واقع ہے۔ آگ لگانے سے پہلے مولانا نے مدرسے کہ بچوں کو سبق دیا کہ صوفے پر بیٹھنا غیر اسلامی ہے۔ اس لیے مجاہد کبھی بھی صوفے پر نہیں بیٹھتے بلکہ وہ نیچے زمین پر بیٹھتے ہیں۔ اس لیکچر کے بعد مولا نا نے ایک چاقو منگوایا اور صوفے کو پھاڑ کر اُسے آگ لگا دی۔ مولانا عبدالعزیز کا جاہلوں والا نظریا یہ ہے کہ صوفے پر صرف اپاہج لو گ بیٹھتے ہیں۔ جو طالب علم صوفے مانگتے ہیں اور زندگی میں آسانی چاہتے ہیں اُنکو ٹرینگ دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ مولانا کی اس حرکت کے تین پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔
پہلا، صوفے کو اس طرح بچوں کے سامنے آگ لگانا بالکل بھی محفوظ نہیں ہے۔ صوفے میںموجود فوم اور پلاسٹک سے خطرناک دھواں پیدا ہو سکتاتھا اور بچوں کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ البتہ اس ویڈیو میں بھی دھواں پیدا ہونے کی وجہ سے بچوں کے کانسنے کی آوازیں سُنی جاسکتی ہیں۔
دوسرا، جس دور میں اسلام مذہب دنیا میں متعارف کروایا گیا تھا تب صوفے جیسی کوئی چیز بھی موجود نہیں تھی۔ اس لیے اسلام میں باقاعدہ طور پر صوفے کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو مولانا عبدالعزیز کو بھی بہت سی چیزوں کا حساب دینے کی ضرورت ہے۔ وہ سیل فون کیوں استعمال کرتے ہیں۔ ایس یو وی (SUV) جیسی بڑی گاڑیوں میں کیوں گھومتے ہیں۔ اپنے ساتھ اتنےزیادہ سکیورٹی گارڈ کیوں رکھتے ہیں جن کے پاس ہر ٹائم اے کے فوٹی سیون (AK-47) موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی زندگی میں آرام کیلئے اور آسانی کیلئے بجلی، گیس اور پانی کے پائپ کیوں استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں بھی ساتویں صدی میں موجود نہیں تھی۔ مولانا کو ٹی وی پر آ کر ان تمام باتوں کا جواب دینےکی ضرورت ہے۔ ایک دفع پہلے بھی ٹی وی چینل پر مولانا عبدالعزیز نے ایک فتوا دیا تھا جسکی ملک کے تمام عالم دین نے مخالفت کی تھی۔ اور اتنا ہی نہیں مولانا نےخود ایک بہت مشہور فلم Among The Believers میں کام کیا ہوا ہے کیا یہ غیر اسلامی نہیں ہے۔ یہ فلم آج بھی نیٹ فلکس (Netflix)پر موجود ہے۔
تیسرا، سب جانتے ہیں کہ پاکستان جلدہی ایف اے ٹی ایف (FATF) کی گرے لسٹ (Grey List) سے نکل سکتا ہے۔ اسی بات کو لے کر ایف اے ٹی ایف تین ماہ بعد اپنا فیصلہ سُنائے گی۔ تو کیا ملک کے دارلحکومت اسلام آباد میں اس طرح کی انتہا پسندی کی حرکتیں انہیں نظر نہیں آئیں گی؟ جو لوگ پاکستان کو بلیک لسٹ (Black List) میں ڈالنے کے حق میں ہیں وہ اس واقعے سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گے۔ اور اُنکے لیے مولانا کی ویڈیو ایک ٹھوس ثبوت کا کام کرے گی۔
گذشتہ سال مولانا عبدالعزیز کے مدرسے کی عورتوں نے اسلام آباد پریس کلب کے قریب عورت مارچ کے نام پر ایک احتجاج کیا تھا۔ ا س میں جو جو حرکتیں ہوئی تھی وہ آج بھی انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ مگر اس سال مولانا کے حکم کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عورت مارچ کے خلاف ایک درخواست دی گئی۔ اس درخوست میں انہوں نے ایسی عورتوں کے احتجاج پر پابندی لگانے کی بات کی جو مغربی ایجنڈے کو فروغ دیتی ہیں۔ یہ درخواست لال مسجد کی شہدا فاونڈیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی۔ انکی یہ مہربانی ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آئی۔
خیر 2007 میں مولانا عبدالعزیز اور انکے بھائی مولانا عبدالرشید? ملک کے اندر ایک ملک بنانے کی کوشش کی تھی۔ مولانا عبدالرشید لال مسجد آپریشن میں اسی وجہ سے مارا گیا تھا۔ یہاں تک کہ 12اپریل 2007کو ایک غیر قانونی ایف ایم (FM) کے ذریعے انہوں نے حکومت کو دھمکایا بھی تھا۔ یہ تمام بیانات انہوں نے لال مسجد میں موجور رہ کر دیے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر انکے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ ملک کےکونے کونے میں خود کش حملے کروائیں گے۔ ہمارے پاس ہتھار اور دستی بم ہیں اور ہم نئے بم بنانے میں بھی ماہر ہیں، ہمیں موت سے کوئی ڈر نہیں لگتا۔اس جیسے اور بھی بہت سے بیانات دیے تھے۔
البتہ اسی وجہ سے ان جیسے اور انتہا پسندگروہ جیسے القائیدہ اور لشکرِمحمدی وغیرہ بھی ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ لال مسجد کے اندر مولانا عبدالعزیز اور اس کا بھائی اپنی ہی ایک حکومت چلا رہےتھے۔ وہاں وہ غیر ملکی سفیروں سے ملتے تھے اور وہی پر انہوں نے چین کے سفیر سے ملاقات کی تھی جو اپنے لوگوں کو اُنکے قبضے سے آزاد کروانے آیا تھا۔ بہت ماہ تک جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کسی بھی طرح مولانا عبدالعزیز اور اسکا بھائی بات چیت کرنے کو تیا ر نہیں تھے۔ آخر کار حکومت کو اِنکے خلاف ملٹری آپریشن کرنا پڑا۔ اس اپریشن کی ایک ایک چیز پاکستان کی تاریخ میں رقم ہے۔
اس آپریشن کے نتیجے میں بہت سے ایس ایس جی (SSG) کمانڈو مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ آپریشن کے کچھ دن پہلے لال مسجد کے قریب ایک خودکش حملہ ہوا تھا جس میں درجنوں پولیس والے شہد ہو گئے تھے۔ آپریشن کے دوران مسجد سے بہت اسلحہ برآمد ہوا ۔ مولانا عبدالعزیز کا بھائی تو مارا گیا لیکن یہ ایک راز کی طرح غائب ہو گیا تھا۔ اب پھر سے وہ ملک میں انتہا پسندی پھیلانے کی کوشش میں ہے۔
پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ملک کو امن کے ساتھ کنٹرول میں بھی رکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایاکہ صوفے جلائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اس پہلو نے بہت سے آرمی کے جوانوں اور پولیس والوں کی یاد تازہ کر دی ہے جو لال مسجد آپریشن میں شہد ہوئے تھے۔ ابھی تک تو مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے۔ کسی بھی عام ملک میں اس چیز کی اجازت نہیں دی جاتی ہوگی کہ کوئی ملک کیلئے دشمن تیار کرے۔ لیکن ایسا یہاں کیوں یہ 14سال بعد بھی ایک راز ہی ہے اور اس کا ابھی تک خلاصہ نہیں ہوسکا۔