Globalization And the Suez Canal Blockage

گلوبل لائزیشن اور سویز نہر میں روکاوٹ:

اخبار کا نام: ایکسپریس ٹریبیون؛ مصنف کا نام: شاہد جاوید برکی؛ تاریخ: 05مارچ 2021

انفارمیشن میں اضافت کے ساتھ ساتھ دنیا چھوٹی ہوتی جا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال نے مختلف ملکوں کے درمیان چیزوں کی ترسیل کو آسان بنا دیا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس جدت کی وجہ سے لوگ بھی باآسانی ایک ملک سے دوسرے ملک جا سکتے ہیں۔ یہ تمام تبدیلیاں زیادہ تر ۸۰ اور ۹۰ کی دہائی میں ہوئی ہیں۔ ان تمام تبدیلیوں کو آپس میں ملا کر گلوبل لائزیشن (Globalization) کا نام دیا جاتا ہے۔ البتہ زیادہ تر ماہرین ان تمام تبدیلیوں کو مثبت نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔

 

گلوبل لائزیشن کا اثر:

:Effect Of Globalization

گلوبل لائزیشن سے دو بڑےاثرات مرتب ہوئےہیں۔ ایک اس سے چیزوں کی پروڈکشن کا طریقہ تبدیل ہو گیا ہے۔ دوسرا چیزوں کی ٹرانسپورٹیشن بہت عام ہو گئی ہے۔ تاہم تمام بڑی کمپنیوں نے اسی وجہ سے اپنےکام کرنے کا طریقہ تبدیل کر لیااور اپنے اخراجات کو کم کرنے کیلئے کمپنیوں نے اپنے کاروبار کو پوری دنیا میں پھیلا دیاہے۔
یہ بات آپ ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ ایپل کمپنی کا شمار دنیا کی بڑی ترین کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ اب کمپنی تو امریکہ کی ہے لیکن کمپنی کی زیادہ تر چیزیں ساؤتھ چین میں بنتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ وہاں کمپنی کی پراڈکٹ بنانے میں لاگت بہت کم آتی ہے۔ اسی طرح چین کی اور بھی بہت سی ایسی کمپنیاں ہے جو دوسری کمپنیوں کیلئے پراڈکٹ بناتی ہیں،یہ کام وہ زیادہ تر ساؤتھ ایشیاء کے ممالک کے لیے کرتی ہیں۔ اور فائنل پراڈکٹ جہازوں کے ذریعے یورپی ممالک میں بھیجا جاتا ہے۔

 

گلوبل سپلائی چِین:

:Global Supply Chains 

اوپر بیان کی گئی تمام باتوں کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک سپلائی چِین بن گئی ہے۔اس سپلائی چِین کی وجہ سے چیز ہوتی کسی کی ہے بنتی کہیں ہیں اور فروخت کہیں ہوتی ہے۔ اس بات سے ایک اور مثال میرے ذہن میں آرہی ہے، یورپ اور امریکہ کی بہت سی کمپنیاں کپڑے بناتی ہیں۔ اُن کپڑوں کو سلائی بنگلہ دیش سے کروایا جاتاہے۔چونکہ بنگلہ دیش میں کپاس کی پیدوار نہیں ہوتی اس لیے کپاس پاکستان اور انڈیا سے منگوائی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں ان کپڑوں کو پیک کرنے کیلئے ہان کانگ بھیجا جاتا ہے۔ اتنے سارے مرحلوں سے گزرنے کے بعد ایک کپڑا پہننے کیلئے تیار ہوتا ہے۔

 

سویز نہر میں روکاوٹ:

:Blockage in Suez Canal

چیزوں کی ترسیل کیلئے سب سے سستا طریقہ سمندر ٹرانسپورٹیشن ہے۔ اسی لیے کاروباری مقاصد کیلئے سب سے زیادہ یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ سسٹم ناکام ہو جائے تو پوری دنیا میں اس کے اثرات نظر آئیں گے۔ حال ہی  میں سویز کنال (Suez Canal) میں روکاوٹ اسکی ایک مثال ہے۔ سویز کنال دنیا کی اہم ترین نہر ہے۔ دنیا کی ہر سال کی تقریباً ایک تھائی کے قریب ٹریڈ (Trade) اس نہر کے ذریعے ہوتی ہے۔
اگرچہ مارچ کے مہینے میں ایورگرین (Evergreen) کا ایک جہاز سویزکنال میں پھنس گیا تھا۔ یہ جہاز تین فٹبال گرؤنڈ جتنا بڑا تھا۔ اس وجہ سے اس نہر کا راستہ مکمل طور پر بند ہو گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس روکاوٹ کی وجہ سے مجموعی طور پر 9.6 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ بین الاقوامی کاروبار کیلئے ایک بڑی روکاوٹ تھی۔

 

اس روکاوٹ کو کیسے دور کیا گیا؟

?How To Tackle This Blockage

اس روکاوٹ کو دور کرنے پوری کیلئے دنیا سے ماہرین مصر پہنچے۔ کیونکہ تقریباً تمام ممالک ہی اس روکاوٹ کو لے کر بہت سنجیدہ تھے۔ درجنوں کے حساب سے جہاں اس روکاوٹ کو دور کرنے کیلئے منگوائے گے۔ یہاں تک کہ یہ بھی ڈر تھا کے جہاز کو دو حصوں میں کاٹ کر راستے سے ہٹایا جائے گا۔ پھر یہ باتیں بھی ہو رہی تھی کے بڑے ہیلیکپٹرز کی مدد سے اس جہاز سے وزن اُتارا جائے۔ کیونکہ جب جہاز پر وزن کم ہوگا تو اسے ہٹانا آسان ہو جائے گا۔ یہ جہاز چند ہفتوں تک روکاوٹ بنا رہا اور آخر کار 29 مارچ کو اسے ہٹا دیا گیا۔

 

چین پر اس روکاوٹ کے اثرات:

:Effects On China Of This Blockage

 

چین پوری دنیا میں کاروباری لہاظ سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اس صدی کے شروع میں جب انہوں نے سمندری اور زمینی راستوں کا استعمال کر کے کاروبار کا سوچا ہوگا ، انہوں نے سویز کنال جیسی روکاوت کا نہیں سوچا ہوگا۔ اس طرح کی روکاوٹ چین پر دو طرح سے اثر انداز ہوسکتی ہے۔ ایک، مستقبل میں ہونے والی ااس طرح کی روکاوٹ چین اور یورپ کے درمیان چیزوں کی ترسیل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اوریہ چین کیلئے انتہائی پریشان کُن بات ہے۔ دوسرا، اگر چین اس کے علاوہ کوئی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس سے ان کی لاگت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ اسی لیے اس ایک واقع کے بعد چین کویہ بات ذہن میں رکھ کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

نتیجہ:

:Conclusion

اس رپورٹ سے ہمیں ایک بات تو سمجھ میں آگئی ہے۔ گلوبل لائزیشن نے ہمیں فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اس نے ہمیں دوسروں کا محتاج بنا دیا ہے۔البتہ پاکستان کوسی پیک (CPEC) کو لے کر حکمت عملی بناتے وقت ان تما م باتوں اور ایسی روکاوٹوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ اگر ہم چین کی بات کریں تو اُنکے پاس ایسےمسائل کو حل کرنے کیلئے ٹیکنالوجی اور پیسے دونوں موجود ہیں۔ مگر پاکستان کے پاس ان دونوں میں سے ایک بھی چیز نہیں ہے۔

 

:Source

Express Tribune