Is China The Biggest Geopolitical Challenge of 21st Century

کیا چین اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جغرافیائی اور سیاسی چیلنج ہے؟

3مارچ 2021 کو امریکہ کی نئی حکومت نے اپنی پالیسی متعارف کروائی ، یہ امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن (Jeo Biden) کی پہلی پالیسی ہے۔ اگر کوئی اس پالیسی کو پڑھے تو اُسے اسکےتین اہم ترین پہلو بالکل بھی نظر انداز نہیں کرنے چاہیے۔ پہلا، امریکہ کی نئی پالیسی کے مطابق چین کو لے کر کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے، بلکہ جوبائیڈن کی بھی چین کو لے کر ویسی ہی جارحانہ تبدیلی ہے جیسی پچھلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (Donald Trump) کی تھی۔ دوسرا، ایشیاء میں موجود ایشیئن بحرالکاہل (Asian-Pacific) کا خطہ امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ اور بنیادی طور پر یہ خطرہ بھی چین کی وجہ سے ہی ہے کیونکہ اُس خطے میں چین ہی سب سے طاقتور ملک ہے۔ تیسرایہ کہ امریکہ جنگی اور حفاظتی مشاورت بھارت کے ساتھ جاری رکھے گا۔ اور یاد رہےکہ اس مشاورت کا آغاز امریکہ کی پچھلی حکومت نے کیا تھا تاکہ وہ چین کو شکست دے سکیں۔
امریکہ کیلئے صدر جو بائیڈن کی ٹیم نے چین کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا امتحان قرار دیا ہے۔ البتہ میں نے یہاں الفاظ میں ذرا سی تبدیلی کی ہے اور چین کو امریکہ کیلئے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج کہا ہے۔ خیر امریکہ کو چاہیے کہ وہ پورے ایشیائی خطے کو ذہن میں رکھے نہ کہ صرف چین کی بنیاد پر پورے خطے کا امن خراب کرے۔ اصل میں امریکہ ایشیئن بحرالکاہل پر حکومت کرنا چاہتا ہے لیکن چین کے ہوتے ہوئے ایسا کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔
اب سوال یہاں یہ ہے کہ امریکہ ایشئین بحرالکاہل کو کیوں نشانہ بنا رہا ہے حالاکہ اُسے صرف چین کو نشانہ بنانا چاہیے کیونکہ انکے لیے اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج تو چین ہے؟ البتہ ایشیئن بحرالکاہل ایک ایسا خطہ ہے جو اپنی طرز کا واحد خطہ ہے اسی لیے اس خطے پر بہت سارے ممالک اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس خطے میں جوہری ممالک کا جتنا اثر ہے وہ شاید ہی کسی اور خطے میں موجود ہو۔ لہٰذا ان تمام باتوں کے پیشِ نظر یہ خطہ بہت حساس ہے ، اگر یہاں ذرا سی بھی غلطی ہوتی ہے تو وہ پورے علاقے کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم اسی لیے امریکہ کا ٰصرف یہ کہنا کہ ہمارے لیے چین سب سے بڑا چیلنج ہے کافی نہیں ہے۔ بلکہ امریکہ کو ایشیئن بحرالکاہل کو چھوڑ کر صرف چین پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر اس علاقے کے بارے میں پالیسی بناتے وقت امریکہ سے ذرا سی بھی غلطی ہو گئی تو اس علاقے کو میدان جنگ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
ترقی کے لحاظ سے چین امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ بے شک امریکہ بہت عرصے سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے لیکن چند سالوں میں چین امریکہ کے مقابلے میں آگیا ہے۔ لہٰذا امریکہ کو یہ خطرہ ہے کہ چین امریکہ سے آگے نہ نکل جائے اور دنیا پر حکومت نہ شروع کر دے۔ اسی لیے امریکہ پوری دنیا کو چین کے خلاف کرنا چاہتا ہےاور خاص طور پر اُن ممالک کو جن کی حدود چین کے ساتھ ملتی ہیں۔ امریکہ کی گذشتہ حکومت نے چین کے خلاف بہت جارحانہ پالیسی کو اپنایا تھا، تب تو امریکہ چین پڑوس ممالک سے یہ تک کہتا تھا کے اگر آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو ہم آپکو برباد کر دیں گے۔ لہٰذا نئی امریکی حکومت کو ان تمام باتوں سے گریز کرنا چاہیے اور پاکستان جیسے ممالک جن کے چین کے ساتھ بہت بہتر تعلقات ہیں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن امریکہ اب بھی بہت سی ایسی پالیساں بنا رہا ہے جو پورے علاقے کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اب جیسے حال ہی میں امریکہ نے ٹیکنالوجی کی ایک تحریک چلائی ہے جس میں یہ شرط رکھی گئی کہ صرف وہ ممالک اس میں حصہ لے سکتے ہیں جن ممالک میں جمہوریت قائم ہے۔ چونکہ چین میں جمہوری نظام نہیں ہے اس لیے وہ اس تحریک میںبھی حصہ نہیں لے سکتا۔ اسکے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے ادارے اور این جی اوز (NGOs) ہیں جن میں اسی قسم کی تفریق پیدا کی گئی ہے۔ لہٰذا نئے امریکی صدر کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ مزید تفریق پیدا کرے بلکہ اُسے چاہیے کے وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے۔
لیکن حالات کسی اور طرف ہی اشارہ کر رہے ہیں، حال ہی میں ایشیئن بحرالکاہل کے امریکی کمانڈر نے جنگی حکمت عملی کیلئے 4.7 بلین ڈالر ااپنی حکومت سے مانگے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کے امریکہ ایشیئن بحرالکاہل میں اپنی جنگی طاقت بڑھنا چاہتا ہے تاکہ وہ چین کا اثرورسوخ اس خطے سے ختم کر سکے۔ ان تمام معاملات کی وجہ سے اس خطے میں پہلے سے ہی کافی مسائل چل رہے ہیں جن میں کچھ ملکوں کے معاشی، سماجی ، جنگی اور سمگلنگ جیسے انتہائی سنجیدہ مسائل شامل ہیں۔
لہٰذا امریکہ کو چاہیے کہ وہ چین کو اکیسویں صدی کا سب بڑا خطرہ نہ سمجھے بلکہ چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے اسی لیے وہ خطے کے دوسرے ممالک کیلئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ان تمام پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ کو اپنی نئی پالیسی بنانی چاہیے۔

:Sources

https://tribune.com.pk/epaper/news/Karachi/2021-03-14/NzNkZWIyYzFjYmQzMDU3N2E2MDM5MmM0MDdhYzdkODQuanBlZw%3D%3D