Need For Public-Private Partnerships In Education
تعلیمی نظام میں سرکاری اور پرائیویٹ شراکت داری کی ضرورت
اخبار کا نا م: ایکسپریس ٹریبیون؛ مصنف کا نام: سارہ علی؛ تاریخ: 27مارچ 2021
جب سے کرونا کی بیماری پھیلی ہے تب سے پاکستان کا تعلیمی نظام بہت متاثر ہوا ہے۔ یہ بیماری طالب علموں کی پڑھائی پر جتنا اثر انداز ہوئی ہے شاید ہی کسی اور چیز پر ہوئی ہو۔ تمام تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے چالیس ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ البتہ تعلیمی اداروں نے ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا لیکن ابھی بھی بہت سے ایسے بچے ہیں جن کے پاس ٹیکنالوجی کی سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ورچول لرنگ (Virtual Learning) سے محروم ہیں۔ لہٰذاُنکو اپنی تعلیم جاری رکھنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
اسکولوں کو بند کرنے کے بعد یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو یہ تمام سہولیات فراہم کریں۔ جس سے اُنکو اپنی تعلیم میں کسی قسم روکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کام کیلئے حکومت کو چاہیے تعلیمی بجٹ میں خصوصی اضافہ کرے۔ تاہم بجٹ میں اضافہ کیا کرنا حکومت نے تعلیم کا گذشتہ بجٹ کم کر دیا تھا۔ اور تعلیم کےبجٹ کا حصہ صحت کے شعبے کو دے دیا گیا تھا۔ اسی کے پیشِ نظر صرف ایچ ای سی (HEC) کو چھ بلین کو خسرہ برداشت کرنا پڑا جبکہ اُنکا ٹوٹل بجٹ صرف 64بلین روپے تھا۔
حکومت کی اس حکمت عملی سے پتہ چلتاہے وہ تعلیم کے شعبے کو ترجیح نہیں دے رہی اور نہ ہی سرکاری اسکولوںمیں جدید ٹیکنالوجی کو لانے کیلئے کوئی فنڈز جاری کر رہی ہے۔ اس وبا میں ای لرنیگ (E-Learning) کو یقینی بنانے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ کی مسلسل سہولت کو یقینی بنائے ۔ اسی کے ساتھ بچوں کے پاس لیپ ٹاپ، سمارٹ فونز اور ٹیبلٹس کی موجودگی کوبھی یقینی بنائے۔ یہ کام دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ پہلا یا تو حکومت خود کوئی ایسا پروگرام متعارف کروائے جس سے ای لرنیگ کو فروغ ملے۔ دوسرا یہ کہ ای لرنیگ کی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے پرائیوئٹ اداروںکی ساتھ شراکت داری کر لے۔ پرائیوئٹ پبلک پارٹنرشپ (PPP) اس عمل میں بہت کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ اس پارٹنر شپ کے قیام سے ایک تو آن لائن لرنیگ سہولیات متعارف کروائی جاسکتی ہیں اور دوسرا تعلیم کے نظام کو ڈیجیٹل بنایا جا سکتا ہے۔
کرونا کا یہ دورانیہ پاکستان کیلئے ایک سنہری موقع ہےکہ وہ اپنی تعلیمی نظام کو جدید بنالے اوراس موقع کو ایسے ہی ہاتھ سے نکلنے نہدے۔ اس عمل میں ہانگ کانگ کے سسٹم کو ایک مثال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے پرائیوئٹ اداروںکے ساتھ مل کر اور استاتذہ کے ساتھ مشاورت سے ایک بہترین تعلیمی نظام بنایا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ حکومت کو ٹیلی کمیونیکشن کے اداروںکے ساتھ بھی مشاورت کرنی چاہیے کہ وہ دور کےاسکولوں میںبھی انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کریں۔ اور کچھ موبائل فون کمپنیاں ایسی ہیںجو غریب عوام کیلئے کم قیمت والے موبائل فون بناتی ہیں ، حکومت کو اُن کے ساتھ بھی شراکت داری کرنی چاہیے۔
لہٰذا کرونا وبا کے دوران فنڈ کی کمی کی وجہ سے پرائیوئٹ کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرنا تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے ایک اچھا اقدام ہے۔ بین الاقوامی ادارے جیسا کہ ورلڈ بینک (World Bank) وغیرہ بھی اس حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں۔ ایس جی ڈی (SGD-17) بھی پرائیوئٹ سیکٹر اور عوامی سیکٹر کی شراکت داری کو عمل میں لا رہے ہیں۔ اُنکا کہنا ہے کہ وہ مشترکہ منصوبے، مشترکہ ہدف اور مشترکہ حکمت عملی سے صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ ہر ایک شعبےکو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے پاکستان کو بھی اس شراکت داری کی بہت ضرورت ہے خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں۔ اس شراکت داری کو کرپشن سے بچانے کیلئے حکومت کو پورا سسٹم بالکل واضح رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اچھے اور بہتر حصہ دار مل سکیں۔
پاکستان میں بہت سے شعبے پہلے ہی پبلک پرائیوئٹ پارٹنرشپ (PPP)کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ مگر اُن میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اُن میں کرپشن ہے اور سسٹم ٹرانسپیرنٹ (Transparent) نہیں ہے۔ اسی لیے پُرانے سسٹم اور تعلیم کے شعبے میں بنائے جانے والے نئے سسٹم کو ایک خاص طرز کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس عمل سے نہ صرف سسٹم کی کارگردگی بڑھے گی بلکہ غریب عوام کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ مزید تعلیمی نظام میں اس شراکت داری کے فوائد کے ساتھ ساتھ اسکی وجہ سے آنے والی پریشانیوں کو دور کرنے کیلئے بھی حکومت بنانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ٹیکنالوجی کے عام ہونے کی وجہ سے سائبر کرائم (Cybercrime) زیادہ ہوسکتاہے۔ لہٰذا اسکو روکنے کیلئے پہلے سے ہی حکمت عملی بنا لینی چاہیے۔
تعلیمی نظام میں بہتری کے ساتھ ساتھ اس شراکت داری کو دیکھ بھال کی بھی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس شراکت داری سے بھی صرف امیر عوام کے بچوں کو فائدہ پہنچ رہا ہو اور غریب کا بچہ پھر ان سہولیات سے محروم ہی ہو۔لائبیرین ایجوکیشن اڈوانسمنٹ پارٹنر شپ (Liberian Education Advancement Partnership) ایسی شراکت داری کی ایک بہترین مثال ہے ۔ اس میں سرکاری اسکولوں اور پرائیوئٹ اسکولوں نے آپس میں مشاورت کر کے اس وبا میں غریب بچوں تک تعلیم کو پہنچاہے۔
یہ ممکن ہے کہ ابتداء میں پاکستان کو اس تعلیمی نظام میں شراکت داری کو لے کر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔ مگر بین الاقوامی کیس سٹڈی پڑھ کر اور تجربے سے ان مسائل پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ لہٰذا پاکستانی حکومت کو اس شراکت داری کو لے کر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔