Talks With India: A Reality Check

انڈیا کے ساتھ بات چیت: ایک حقیقی خلاصہ

اخبار کا نام: ایکسپریس ٹریبیون؛ مصنف کا نام: زمیر اکرم؛ تاریخ: 30مارچ2021

جب سے انڈیا کے ساتھ پاکستان کا امن معاہدہ ہوا ہے تب سے دونوں ممالک کے لوگ آپس میں اچھے تعلقات کی اُمید کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کی ابتداء گذشتہ ماہ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم او (DGMO) کے 2003 کے سیز فائر کی ڈیل کو دوبارہ لاگو کرنے سے شروع ہوئی۔ اس میٹنگ کے بعد دونوں ممالک کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے اور بھی بہت سے اقدامات کیے گئے۔ جیسے اِنڈس واٹر ٹریٹی (Indus Water Treaty) پر بات چیت کی گئی اور انڈیا کے وزیراعظم نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا اور یوم پاکستان کی مبارک باد دی۔ اس کے علاوہ جلد ہی دونوں ممالک کے سفارتی وزراء آپس میں ایک میٹنگ بھی کرنے والے ہیں۔

اگرچہ امن کے جوش کے ساتھ ساتھ پاکستان کو حقیقت بھی اچھی طرح جاننے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کیلئے پاکستان کو انڈیا کا اراداہ جو ماضی میں پاکستان کو لے کر تھا اور گذشتہ تمام معاہدوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ البتہ ماضی میں اور اب بھی تمام پاکستانی لیڈز انڈیا کےساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں۔ اب جو بھی انڈیا کے ساتھ بات چیت کے معاملات چل رہے ہیں اُس میں پاکستان کی نیت تو صاف پتہ چل رہی ہے۔ مگر سوال یہاں یہ ہے مودی حکومت کے ارادے اچانک سے کیسے تبدیل ہو گئے ہیں۔ اُنکی پاکستان کو لے کر تو بہت سخت پالیسی تھی آخر راتوں رات ایسا کیا ہوا کہ وہ پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کیلئے راضی ہو گئے۔

اس کی ایک وجہ تو امریکہ کی نئی حکومت معلوم ہوتی ہے۔ صدر جو بائیڈن (Joe Biden) نے انڈیا کو ذاتی طور پر مشورہ دیاہے کہ وہ پاکستان کو لے کر تھوڑا ٹھنڈا ہوجائے۔ اور امریکہ کے ساتھ مل کر خود کو چین کے خلاف تیار کرے کیونکہ امریکہ ایشیائی بحرالکاہل (Asia-Pacific) پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔
اس کی ایک وجہ انڈیا کی چین کے ساتھ حال ہی میں لداخ (Ladakh) سرحد پر ہونے والی لڑائی بھی ہو سکتی ہے۔ چونکہ انڈیا دونوں اطراف سے اپنے دشمن کا سامنا نہیں کر سکتا یعنی پاکستا ن اور چین، اس لیے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے راضی ہو گیاہے۔

البتہ ان تمام باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہےکہ انڈیا پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات ختم کرنے کیلئے رضامند ہو گیا ہے۔ اگر گذشتہ مثالوں کو ذہن میں رکھیں تو انڈیا ایسا صرف اس لیے کر رہا ہے کیونکہ وہ بات چیت کو ڈھال بناکر امریکہ کے دباؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کی بات چیت اگر یہ کبھی حقیقت کی شکل لیتی ہے تو یہ سچ میں دونوں ممالک کیلئے بہت فائدہ مند ہوگی۔ لیکن اگر گذشتہ تمام معاہدوں کی طرح یہ بھی ایک چال ہے تو اس صورت میں صرف انڈیا کو فائدہ ہوگا۔
 

اگرچہ ماضی کے تجربے ہمیں یہ سیکھاتے ہیں کہ انڈیا پر چا ہے جتنا بھی بیرونی دباؤ کیوں نہ ہو وہ کشمیر کے معاملے میں یہ بولتے ہیں؛ کشمیر اُن کا ذاتی مسئلہ ہے لہٰذا کسی بھی بیرونی ملک یا بین الاقوامی ادارے کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ انڈیااور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ لیکن جب بھی انڈیا کشمیر کے بارے میں پاکستان سے بات کرتا ہے تو یہی بولتاہے کہ پاکستان کشمیر میں دہشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔ تاہم وہ اس بات پر بات بھی نہیں کرتے کہ وہ خود کشمیر ی عوام پر کیا کیا ظلم کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اس موضوع پرہونے والی بات چیت کبھی نہ ختم ہونے والی بحث بن جاتی ہے۔

اس کے علاوہ سیا ہ چین، سر کریک (Sir Creek) اور والار بیراج (Wullar Barrage) جیسے تنازعات پر بھی انڈیا کا غیر مناسب رد عمل رہا ہے۔ اسی وجہ سے ان میں سے ایک مسئلہ بھی بات چیت سے حل نہیں ہو پایا۔ انڈیا کسی بھی صورت میں ان معاملات پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس لیے پاکستان کو چاہیے کسی بھی نئے مسئلے پر بات چیت کرنے سے پہلے تمام پُرانے مسائل پر انڈیا سے بات کرے اور انکو حل کرے۔

انڈیا کی پاکستان کے ساتھ دوستی کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس عمل سے انڈیا کشمیری عوام کو یہ ظاہر کروانا چاہتا ہے کہ پاکستان تو انڈیا کے ساتھ امن کیلئے تیار ہوگیا ہے۔ لہٰذا کشمیریوں کی بہتری بھی اسی میں ہے کہ وہ بھی انڈیا کی کشمیر پر حکومت کو تسلیم کر لیں۔ ایک اور بات کا خدشہ بھی ہے کہ کشمیر جیسے بڑے مسائل کو سائیڈ پر کرکے انڈیا پاکستان کے ساتھ چھوٹے مسائل جیسے تجارت اور دونوں ملکوں کی عوام کے آپسی معاملات پر بات چیت کرے۔ اس بات چیت کا مقصد صرف یہ ہوگا کہ دِکھاوے کیلئے انڈپاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے اور مسئلہ کشمیر ویسے ہی چلتا رہے۔

ان تمام باتوں کی روشنی میں پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ انڈیا سے زیادہ اُمید نہ لگائیں۔ اسی کے ساتھ پاکستانی پالیسی بنانے والے حضرات کو انڈیا کےساتھ امن معاہدے کو لے کر پالیسی بناتے وقت ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی انڈیا کے پُرانے حکمران منموہن سنگھ اور واجپائی جیسا نہیں ہے جو بات چیت سے سرحدی معاملات حل کرنے کیلئے اتنی آسانی سے راضی ہو جائے گا۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد اب مودی آزاد کشمیر اور گلگت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

البتہ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ امن کو لے کر جتنے بھی نظریات ہیں وہ اب غیر حتمی نظر آ رہے ہیں۔ مودی امریکہ کی مدد مل جانے کی وجہ سے انڈیا کو گلوبل پاور سمجھتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کو بھی ساؤتھ ایشیا ء کے باقی تمام ممالک کی مشاورت کی ضرورت ہے۔ ایسے تمام حالات میں انڈیا کے ساتھ پاکستان کا امن قائم ہونا ایک ناممکن سی بات لگ رہی ہے۔ اسی طرح پاکستان سے اس بات کی بھی مانگ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس امن کیلئے کشمیر پر بات نہ کرے اور اپنی سفارتی پالیسی بھی انڈیا کی مرضی سے بنائے ، خاص طور پر چین کے معاملے میں۔ لہٰذا اس طرح کی کوئی بھی مانگ انڈیا کا اصل مقصد واضح کر دے گی۔

اسی طرح پاکستان کو اپنا مقدر امریکہ کے ہاتھوں میں بھی نہیں دینا چاہیے۔ چین کے معاملےمیں انڈیا اور امریکہ کےتعلقات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے امریکہ چاہتاہے انڈیا پاکستان کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر کر لے کیونکہ یہ بہتر تعلق چین کا مقابلہ کرنے میں امریکہ کے کام آئیں گے۔ لہٰذا پاکستانی عوام کو بھی اس بات چیت میں حصہ لینا چاہیے کیونکہ اس سے بہتر فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔

:Source

Express Tribune