Towards Economic Prudence: A Leaf From India’s Experience

معاشی سمجھداری کی طرف: انڈیا کے تجربے کا ایک پہلو

اخبار کا نام: ایکسپریس ٹریبیوں؛ مصنف کا نام: دوردانہ نجم؛ تاریخ: 18 مارچ 2021

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک خطاب میں انڈیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ خطے میں انڈیا کی غیر مفاہمتی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ البتہ ان تعلقات کو بہتر بنانے کا اس سے اچھا وقت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اب امریکہ کا افغانستان کے ساتھ امن معاہدہ مکمل ہونے جا رہا ہے۔ اسی لیے انڈیا کی سرحد پر امن ہمارے ملک کی ترقی کیلئے بہت کارآمد ثابت ہو گا۔ ان تمام پالیسیوں پر عمل درامد کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ وہ انڈیا کہ افزائش اور ترقی سے کچھ سبق بھی سیکھے۔
انڈیا کی معیشت (Indian Economy) دنیا کے ساتویں نمبر کی بڑی معیشت ہے۔ مغربی اور عرب ممالک بہت سارے پراجیکٹس میں انڈیا کے حصے دار ہیں۔ یہاں تک کہ عرب ممالک نے انڈیا میں سو بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ انڈیا کی اس معیشت کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کا یو این او سکیورٹی کونسل (UNO Security Council) میں کشمیر کے مسئلے کو لے کر ناکام ہونا ہے۔ اس بات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ کشمیر پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کی وجہ بنا ہے۔
اب سوال یہاں یہ ہے کہ انڈیا میں اتنی غربت ہونے کے باوجود انہوں نے کیسے دنیا کے سامنے ایک بہتر ایمج بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ انڈیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی نافرمانی کی جاتی ہے پھر وہ کیوں دنیا کے سامنے معیشت کے اعتبار سے ہم سے اچھا ملک ہے۔ حال ہی میں یو این او نے لگاتار دو رپورٹس بنائی جن میں کشمیر ی لوگوں پر انڈیا کے ظلم و ستم کو واضح طور پر بیان کیا گیاہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اآج بھی یو این او انڈیا کی مدد کیلئے اُسکے پیچھے کھڑا ہے۔
اگرچہ انڈیا نے بیسویں صدی کے آخری حصے میں بہت ترقی کی ہے اور اپنی معیشت کو دنیا کی بہترین معیشت میں سے ایک بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ البتہ اگر باقی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے تو 2019 میں بنائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 364 ملین سے بھی زیادہ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی دوسرے ملک میں پائی جانے والی غربت سےبہت زیادہ ہے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انڈیا میں تعلیم، صحت اور معیارئےزندگی کا سب سے بُرا حال ہے۔ اسکے علاوہ ڈاؤن ٹو آرتھ (downtoearth) ایک ویب سائٹ ہے جسکی ریسرچ کے مطابق زندگی کا معیار اتنا کم ہونے کی وجہ سے انڈیا میں 111 ملین لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ کیلئے غریب ہی رہے گے۔ تو پھر ایسی کون سی بات ہے جو مغربی ممالک اور عرب ممالک کو انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور کرتی ہے، خاص طور پر تب جب انڈیا کی پالیسی اتنی خراب ہے کہ وہ اپنے ہی لوگوں کو غربت سے نکال نہیں پا رہے ؟ اس بات کا جواب انڈیا کی سفارتی پالیسی میں ملتا ہے۔ انڈیا میں بھلے جتنی بھی غربت ہو لیکن اُن کی سفارتی پالیسی بہت اعلیٰ ہے۔ وہ اُن تمام ممالک کو بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں جو اُنکے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر خصوصی طور پر انڈیا کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بات کریں تو چین کی بڑھتی ہوتی طاقت کو کم کرنے کیلئے امریکہ نے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھے ہیں ۔ اس بات کا فائدہ انڈیا خوب اُٹھانا جانتا ہے اسی لیے وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے پر مائل کرتاہے۔ اسکے علاوہ نہرو کی دی ہوئی معاشی پالیسی پر انڈیا آج تک عمل کر رہا ہے جس کے مطابق انڈیا غیر ملکی کمپنیوں کی خوش آمد کرتا ہے اور اُن سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ لہٰذا انڈیا کی اس طرح کی حکمت عملی نے انڈیا کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں سے ایک بنا دیا ہے۔
غیرملکی کاروباری کمپنیاں ہمیشہ اُس طرف ہی رُخ کرتی ہیں جہاں اُنکو زیادہ فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ جب سے بھارتی جنتا پارٹی کیحکومت آئی ہے تب سے انڈیا نے اقلیتوں پر ظلم کرناشروٕع کیا ہے۔ البتہ اب غیر ملکی کمپنیاں انڈیا میں سرمایہ کاری ہی اتنی کر چکی ہیں کہ وہ آسانی سے انڈیا کو چھوڑ نہیں سکتی۔ یہ بات انڈیا باخوبی جانتا ہے اس لیے وہ اپنی من مانی کر رہا ہے۔ لہٰذا آج کے دور میں طاقت یہ نہیں ہے کہ کون کتنا خوشحال ہے بلکہ یہ ہے کہ کس کی معاشی حالت بہترہے۔ شاید اسی وجہ سے آج تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو پایا کیونکہ جن لوگوں نے یہ مسئلہ حل کرنا ہیں وہ خود انڈیا کےحامی ہیں۔
ان تمام باتوں سے پاکستان کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اپنے دوست ممالک سے کس طرح تعلقات بہتر کر کے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک تو اس حکمت عملی میں ناکام ہی رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ایک پاکستانی مسعود اظہر یو این او کا چیف تھا تب بھی ہم اس بات سے کوئی خاص فائدہ نہیں اُٹھا پائے تھے۔
پاکستان کاایک اور بھی بہت بڑا مسئلہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے مطلق تمام فیصلے سفارتی حکومت کی بجائے فوجی قیادت کی طرف سے کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام مسائل تین طریقوں سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ پہلا، تمام ادارے خود مختار ہونے چاہیے اُن میں کسی قسم کی سیاسی یا سماجی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ اسکے علاوہ سفارشی کلچر کو بھی تمام اداروں میں سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا، سیاست دانوں اور حکومتی افسران کو یہ سمجھنےکی ضرورت ہے کہ حالات کو اپنے فائدے کیلئے کیسے استعمال کرنا ہے۔ تیسرایہ جو سیاسی جماعتوں کا غیر جمہوری طریقہ کار ہے اسکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا کی ترقی کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ وہاں تمام فیصلے جمہوری طور پر بنائی گئی حکومتیں کرتی ہیں نہ کہ انکی فوج اور سکیورٹی ادارے۔ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کیلئے ایک لمبا فاصلہ طے کرنے کی ضرورت ہے اور ایسی سیاست کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو صرف ذاتی مفاد کیلئے کی جا رہی ہو۔